اک خطرناک طوفان جس قوم کے دروازے پر دستک دے رہا ہو بپھری ہوئی لہریں اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جانے کے لئے موجیں مار رہی ہوں، ایسی قوم اگر احتیاطی تدابیر کرنے کی بجاۓ طوفان کے امکان کو ہی رد کرنے لگے تو ان کے انجام کے بارے میں کس کو شک ہو سکتا ہے ؟ ایسے وقت میں جب عالم اسلام خصوصاً مسلمانان پاکستان انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں، اگر لوگوں کو ان حالات کی نزاکت سے آگاہ کرنا جذباتیت یا مبالغہ آرائی ہے تو پھر امّت کو جگانے کا مناسب وقت اور طریقہ کیا ہو گا ؟؟؟ کیا طوفان کے آثار دیکھ کر اس کی آمد کا انکار کر دینے سے طوفان ٹل جائے گا ؟ یا گھروں کی دہلیز پر پہنچی سونامی کی لہریں صرف اس لئے واپس پلٹ جائیں گی کہ ہم نے کوئی تیاری نہیں کی تھی... یا ہم سو رہے تھے ؟ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہے کہ ہم خطرات کا ادراک کر کے ان سے اجتمائی مقابلے کے بجاۓ ایک ایک کر کے مٹ جانے کے عادی ہو رہے ہیں. ہر ایک جانتا ہے کہ اہل حق کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن ہم اپنی سستی، کم ہمتی، اور کاہلی کو تاویلات کا لباس اوڑھا کر خواب و خیال کی دنیا میں مگن رہنا چاہتے ہیں.
No comments:
Post a Comment