Friday, 8 February 2013

کا ہم نے دنیا کے بدلے اپنا دین تو نھیں بیچ دیا

ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔

اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔

تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو....

نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں،

اس نے کاؤنٹر والی سے کہا ”میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں.... اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو، یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ میرا دین مجھے پردے کا حکم کادیتا ہے تم نسلی مسلمان ہو کر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔مجھے صرف اپنے اللہ کا خوف ہے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محبت ہے ، اور حکم کو پورا کرنے میں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ،

اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے دنیا کے بدلے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا ہے۔

کیا یہ الفاظ ہمارے منہ پر بھی طمانچہ ہیں...??

شرک کی طرف لے جانے والے ذرائع


شرک کی طرف لے جانے والے ذرائع جن سے رسول اللہ نے منع کیا ۔

=========================================


شرک کی طرف لے جانے والے وہ قولی اور فعلی ذرائع جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا ۔


٭ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمایا جس میں اللہ اور مخلوق کے درمیان برابری ہو مثلاً : (ماشا ء اللہ وشئت ، ولو لا اللہ و انت ) (جس طرح اللہ چاہے اور تُو چاہے، اگر اللہ اور تُو نہ ہوتا ) اور حکم دیا اس کے بدلے میں یہ الفاظ کہے جائیں

(ماشاء اللہ ثم شئت ) جس طرح اللہ چاہے پھر آپ ۔ (1)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی تعظیم میں غلو کرنے سے منع کیا ۔ مثلاً

ان پر قبہ بنانا ،اُن پر روشنی کرنا،اُن کو پختہ کرنا،اور اُن پر لکھنا ۔(2)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےقبروں کو مسجدیں بنانے اوراُن کے پاس نمازپڑھنے سے منع کیا ہے اگرچہ مسجد نہ ہی بنی ہوئی ہو کیونکہ یہ قبروں کی عبادت کا ذریعہ ہے ۔ (3)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےطلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نمازپڑھنے سے منع کیا ہےکیونکہ اس میں اُن لوگوں کی مشابہت ہوتی ہےجو ان اوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ (4)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادت کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سےتین مسجدوں کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف سفرکرنے سے منع کیا ہے

وہ تین مساجد مندرجہ ذیل ہیں :

مسجد حرام ،مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور مسجد اقصی ۔ (5)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس جگہ نذر پوری کرنے سے منع کیا جہاں

پر بت پرستی یا زمانہ جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا ہو ۔(6)


٭۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شان میں غلو کرنے سے منع فرمایا

فرمایا : (میری شان میں غلو نہ کرناجس طرح نصاری نے ابن مریم (علیہ السلام)

کی شان میں غلو کیا میں صرف اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ) (7) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

(مدد مجھ سے نہ مانگی جائے بلکہ مدد صرف اللہ تعالٰی سے مانگی جائے) ۔


٭۔ نیک لوگوں کی مدح میں غلو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا( اس سے مراد یہ ہے کہ ا ُن کو اُن کے مرتبے سے بڑھ کر وہ مقام دینا جو صرف اللہ تعالٰی ہی کے لائق ہے ۔

مثلاً مصائب میں اُن سے مدد مانگنا ان کی قبروں کا طواف کرنا،ان کی مٹی سے تبرک حاصل کرنااور اُن کی قبروں پر جانور ذبح کرنا اور اُن سے مدد مانگنا ۔) (8)


٭۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاندارکی ہر قسم کی تصویر سے منع کیا ہے اور ایساکرنے والے کو سخت ڈانٹ پلائی ہے اور اس کو مٹانے اور تبدیل کرنے کا حکم دیا … خصوصاً جس وقت تصویر کو

دیوار،سڑک یا میدان میں لگا کر اس کی تعظیم کی جائے کیونکہ یہ جاہل اور گمراہ لوگوں کے شرک کا باعث بنیں گی اگرچہ کچھ عرصہ کے بعد ہی ہو ۔ (9)

Thursday, 7 February 2013

صلاح الدین ایوبی کی اولاد کیوں سو رہی ہے

اک خطرناک طوفان جس قوم کے دروازے پر دستک دے رہا ہو بپھری ہوئی لہریں اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جانے کے لئے موجیں مار رہی ہوں، ایسی قوم اگر احتیاطی تدابیر کرنے کی بجاۓ طوفان کے امکان کو ہی رد کرنے لگے تو ان کے انجام کے بارے میں کس کو شک ہو سکتا ہے ؟ ایسے وقت میں جب عالم اسلام خصوصاً مسلمانان پاکستان انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں، اگر لوگوں کو ان حالات کی نزاکت سے آگاہ کرنا جذباتیت یا مبالغہ آرائی ہے تو پھر امّت کو جگانے کا مناسب وقت اور طریقہ کیا ہو گا ؟؟؟ کیا طوفان کے آثار دیکھ کر اس کی آمد کا انکار کر دینے سے طوفان ٹل جائے گا ؟ یا گھروں کی دہلیز پر پہنچی سونامی کی لہریں صرف اس لئے واپس پلٹ جائیں گی کہ ہم نے کوئی تیاری نہیں کی تھی... یا ہم سو رہے تھے ؟ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہے کہ ہم خطرات کا ادراک کر کے ان سے اجتمائی مقابلے کے بجاۓ ایک ایک کر کے مٹ جانے کے عادی ہو رہے ہیں. ہر ایک جانتا ہے کہ اہل حق کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن ہم اپنی سستی، کم ہمتی، اور کاہلی کو تاویلات کا لباس اوڑھا کر خواب و خیال کی دنیا میں مگن رہنا چاہتے ہیں.


Saturday, 2 February 2013

١٢ ربیع الاول کا جشن اور ہمارا ایمان


بارہ ربیع الاوّل کا مبارک دن گزر گیا۔ الحمد للہ ۔میں اپنے ضمیر سے مطمئن ہوں۔ میں نے اپنے مذہبی فرائض جوش وخروش سے ادا کیے۔ میں نے اس محبت کا اظہار احسن طریقے سے کیا جو مجھے آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ میں نے جلسے اور جلوس کے لیے دل کھول کر رقم دی۔ انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میرے بچوں نے سبز جھنڈے پکڑ کر اور سبز ٹوپیاں پہن کر جلوس میں شمولیت کی اور کئی میل پیدل چلے۔ میں نے دودھ اور شربت کی سبیلیں لگائیں ، قورمے اور بریانی کی دس دیگیں پکاکر تقسیم کیں۔ منوں کے حساب سے شیر مال تھے۔ کپڑے کے بیسیوں تھان مستحقین میں بانٹے۔
الحمدللہ مجھے اطمینان ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے پوری امید ہے کہ میرا نام اُن مسلمانوں میں ضرور شامل ہوگا جو مدینہ منوّرہ کی خاکِ پاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ سب سے نیچے سہی، فہرست میں اس حقیر پُرتقصیر کا نام تو ہوگا!انشاء اللہ !
میں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں پوری کردیں۔ اب میں پورے سال کے لیے سرخروہوں اور آزاد بھی۔ میں اگرسرکاری ملازم ہوں تو اپنی مرضی کے وقت پر دفتر پہنچوں گا۔ پہنچ کر اخبارات کا مطالعہ کروں گا‘ پھر گھر کے کاموں کے لیے ادھر ادھر ٹیلی فون کروں گا۔ سائل آیا تو اسے اپنی صوابدید پر ملوں گا۔ نہ مل سکا تو باہر بٹھائے رکھوں گا۔ دوبارہ آنے کا کہہ دوں گا۔ ملازمین بھرتی کرنے ہوئے تو سفارش اور رشوت کو معیار بنائوں گا۔ اُوپر والوں نے جوکچھ کہا، بے چون وچرا مانوں گا۔ ماتحتوں کی ترقیاں تعیناتیاں کرتے وقت حالات کے تقاضے پیشِ نظر رکھوں گا۔ خالص میرٹ ایک ایسا تصور ہے جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ فیصلے طاقت ور گروہوں کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس ، پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں، افراطِ زر کی شرح، بنکوں سے لیے گئے قرضوں کی معافیاں، یہ اور اس قبیل کے دوسرے مسائل میں بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔ عوام ہی سب کچھ نہیں، اس بات کا بھی تو خیال رکھنا ہے کہ میری اگلی تعیناتی بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک کہاں ہوگی!
میں اگر تاجر ہوں تو ربیع الاوّل کے جشن میں ہر شخص جانتا ہے میرا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ اب سال کے باقی ایّام آرام وسکون اور اطمینانِ قلب سے گزریں گے۔ خوراک، پانی، دوائیں، معصوم بچوں کا دودھ اور ملاوٹ، یہ سب کاروبار کی مجبوریاں ہیں، یہ حدیث تو ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے لیکن اللہ کی ذات گواہ ہے کہ میں نے میلادالنبیؐ میں تن من دھن۔ کسی قسم کی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ میں ٹیکس پورا نہیں دے سکتا۔ دکان کے سامنے ہٹ دھرمی سے میں نے فٹ پاتھ پر قبضہ کررکھا ہے، لیکن اس سے آخر میری آمدنی میں حرام کی ملاوٹ کیسے ہوسکتی ہے ؟سرکاری جگہ ہے، کسی فرد کی تو نہیں، رہا پیدل چلنے والوں کا حق ،تواگر انہیں ذرا سی اذیّت پہنچ رہی ہے تو آخر دنیا کا کاروبار بھی تو چلنا ہی ہے۔ توانائی کی شدید قلّت کے باوجود میں نے دکان دن کے بارہ بجے ہی کھولنی ہے اور رات کے دس بجے تک ہی کاروبار کرنا ہے۔ یہ تو ریاست کا کام ہے کہ توانائی کی قلّت پر قابو پائے۔
میں اگر سیاست دان ہوں تو پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ بارہ ربیع الاوّل کے مبارک جلسے میں میں نے عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ہوئی تقریر کی۔ فرطِ جذبات سے میری آواز بھرّا گئی اور سننے والوں پر رقّت طاری ہوئی۔ رہیں سال بھر کی سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں تو وہ تو کاروبارِ دنیا ہے۔ سرکاری خرچ پر، عوام کے ٹیکسوں سے، میں نے اس برس بھی حج کرنا ہے۔ یہ جواخبار میں آیا ہے کہ ایک سیاست دان وزیر کے پاس اکاون (51)سرکاری کاریں ہیں تو یہ میڈیا کا پاگل پن ہے جو اس قسم کی خبروں کو اُچھال رہا ہے۔ ہم سیاست دان ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ہمارے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ جب سیاست دان وزیراعظم بنتا ہے تو اسے انتخابات سے پہلے پچاس ارب روپے اپنے صوابدیدی فنڈ میں ڈالنے پڑتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے تیس کروڑ روپے ہرایم پی اے کو دیئے ہیں تو یہ آخر سیاسی تقاضے ہیں جو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں میرا بھائی اگر چیف منسٹر ہے اور میرے معاون اور خدمت گار صوبائی حکومت کے ملازم ہیں اور وہاں سے تنخواہ لے کر میری معاونت کررہے ہیں تو سیاست میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آخر یہ بھی تو دیکھیے کہ عشقِ رسولﷺ میرے دل میں کس شان سے موجزن ہے۔!
میں تاجر ہوں یا سیاست دان، سرکاری ملازم ہوں یا صنعت کار، میری حیثیت پڑوسی کی ہے یا باپ کی، یاماں کی، میں شوہر ہوں یا رشتہ دار، میں جوکچھ ہوں، میں اپنے پیارے نبیﷺ پر جان تو قربان کرسکتا ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ میں اپنی زندگی اس طرح بسر کروں جس طرح آپﷺ نے بسر فرمائی تھی۔ صبح سے شام تک ہرکام میں، ہر سودے میں، ہر قدم پر، آپﷺ کے احکام پر عمل پیرا ہونا، یہ تو جان قربان کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ آپ خود سوچیے، اگر ملاوٹ سے مجھے کروڑوں روپے کا فائدہ ہے، اگر سرکاری خزانے کے ناجائز استعمال سے میں الیکشن جیت لیتا ہوں اور اگر ’’تحائف‘‘ سے میرے لامتناہی اخراجات پورے ہورہے ہیں تو یہ سب کچھ نہ کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ صلہ رحمی ہی کو لیجیے، اگر میں نے ناراض رشتہ داروں کے گھر جاکر ان سے صلح کرلی تو میری عزت کا کیا بنے گا؟ بیٹی کو جائداد میں سے حصہ دیا تو لڑکوں کو کیا ، منہ دکھائوں گا۔ یہ درست ہے کہ میرے آقاﷺ کا حکم ہے کہ بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کہیں نہ کرو لیکن معاشرے میں سراُٹھا کر کس طرح چلوں گا؟ بھائی!آپﷺ کے احکام پر عمل کرنا اس زمانے میں مجھ جیسے گنہگار کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ اپنی ظاہری شکل وصورت اسلامی بنالوں۔ لباس ایسا پہن لوں کہ ہردیکھنے والا مجھے نیکوکار اور متقی سمجھے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں‘ حقوق اللہ یعنی نماز روزہ اور حج‘ پورے پورے ادا کروں، لیکن یہ جو میرے آقاومولاﷺ کے احکام حقوق العباد سے متعلق ہیں تو یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ تو خاردار جھاڑیوں والے راستے پر کپڑے سمیٹ کر چلنے کے مترادف ہے۔ میں یہ کروں گا کہ انشاء اللہ، زندہ رہا تو اگلے بارہ ربیع الاوّل کے جلسوں اور جلوسوں میں اور بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ لوں گا۔ آپ حضرات دعا کرتے رہیے۔

Sunday, 27 January 2013

انسان کی قدر و قیمت


مقرر نے سو ڈالر کا نیا کڑکڑاتا نوٹ جیب سے نکال کر حاضرین کےسامنے لہراتے ہوئے پوچھا، کون ہے جو یہ سو ڈالر کا نوٹ لینا چاہے گا؟

حاضرین میں سے لگ بھگ سب ہی لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے نوٹ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔

مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر اپنی اس حرکت کے بعد۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی، سب نے یہی کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ نوٹ اس حال میں بھی لینا چاہیں گے۔

اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر اپنے جوتوں سے مسل دیا۔ مٹی سے لتھڑے بے حال نوٹ کو واپس اٹھا کر حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟ اور اس بار بھی نوٹ لینے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔

مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں جو ابھی ابھی ہم نے اخذ کیا ہے اور وہ سبق یہ ہے کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا تھا تو رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔

ہم انسان بھی تو اسی طرح کئی بار حالات کے منجھدار میں پھنس کر اپنا توازن کھوتے اور گر پڑ جاتے ہیں، کئی بار پریشانیوں کے کیچڑ اور غموں کے تعفن میں لتھڑ جاتے ہیں۔ کئی بار اپنے غلط فیصلوں کے ہاتھوں ناکام ہو کر زمین پر جا گرتے ہیں اور اسباب کی کمی کی بنا پر چر مر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی قیمت ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، یاد رکھئیے کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں آپ کی قدر و قیمت میں کہیں سے بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ اپنے آپ میں یکتا اور انوکھے ہیں۔ مت سوار ہونے دیجیئے اپنی لغزشوں کو اپنے حواس پر، مت دھندلانے دیجیئے اپنے خوابوں کو اپنی ناکامیوں کی پرچھائیوں کے نیچے دب کر، بھول جائیے اپنی نا مرادیوں کو۔ آپ کی اصل قیمت وہی ہے جو آپ نے خود مقرر کرنی ہے اور یاد رکھیئے اپنی قدر کو کبھی کم مت کیجیئے اور نا ہی اپنی قیمت کبھی کم لگائیے۔

Saturday, 26 January 2013

***اسلام اور جدید ریسرچ***



***اسلام اور جدید ریسرچ***

میری ایک دفعہ میٹنگ تھی جس میں امریکن کمپنی کے تین ڈائریکٹر اور جنرل منیجر تھے. ہم ایک ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے. فقیر نے دیکھا کہ وہ امریکن حضرات بھی ہاتھ سے کھانا کھا رہے ہیں. حالانکہ چھری کانٹے ایک طرف رکھے ہوئے تھے. فقیر بہت حیران ہوا اور پوچھا آپ نے یہ چھری کانٹے استعمال نہیں کئے. انہوں نے کہا کہ ہمیں ہاتھوں سے کھانا کھانا پسند ہے. آج پہلی بار گوروں کو دیکھا کہ یہ چھری کانٹے کو چھوڑ کر اس طرح انگلیوں سے کھا رہے ہیں.

جب ہم کھانا کھا چکے تو انہوں نے باقاعدہ ساری انگلیوں کو باری باری منہ میں لے کر صاف کیا. فقیر نے ان سے سوال کیا Why you did this?
تو وہ کہنے لگے کہ یہ نئی تحقیق ہے جب انسان انگلیوں سے کھانا کھاتا ہے تو ان کے مسام سے پلازما خارج ہوتا ہے جس کو مائیکرو سکوپ کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے. اور یہ پلازما کھانے کے ساتھ انسان کے منہ میں جاتا ہے اور ہاضمہ میں کام آتا ہے. کہنے لگے کہ اب ہم چھری کانٹوں کے بجائے انگلیوں سے کھانا پسند کرتے ہیں.

- از: مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم عالیہ





Friday, 25 January 2013

اطاعت الاللہ




میں بڑا ہی جاہل بندہ ہوں جی۔۔۔ مجھے نا تو سائنس کا علم ہے اور نا ہی فلسفے سے کوئی دلچسپی۔۔۔ مجھے نا تو مشکل باتیں سمجھ آتی ہیں۔۔۔ اور نا ہی میں زومعنی گفتگو کر سکتا ہوں۔۔۔
میری جہالت کی انتہا دیکھیے کہ مذہب میں فلسفے کی شمولیت کا قائل نہیں ہوں۔۔۔ اندھوں کی طرح مذہب کو اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے . . مذہب بھی کونسا۔۔۔ ساڑھے چودہ سو سال پرانا۔۔۔ وہ مذہب جسے دنیا آج دقیانوس کہلانے پر تلی ہوئی ہے . . لیکن ناجانے کیوں۔۔۔ مجھے میرا مذہب اتنا اچھا کیوں لگتا ہے . .
میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں۔۔۔ لیکن مجھے خدا کی خدائی میں کوئی شک نہیں نظر آتا۔۔۔ مجھے بس یہ سمجھ آتی ہے کہ ہر سبب کے پیچھے مسبب الاسباب کا ہونا لازمی ہے۔۔۔ ہر فکر کے پیچھے ایک مفکر کا ہونا واجب ہے۔۔۔ جب میں “ایاک نعبد و ایاک نستعین” پڑھتا ہوں تو پھر مجھے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔۔ بس آنکھیں بند کیے ایک خدا کے وجود کا یقین کر لیتا ہوں۔۔۔ وہ خدا جس نے کائنات کی تخلیق کی، آسمان بنائے اور زمین بنائی۔۔۔ ہمیں اشرف المخلوقات بنایا۔۔۔ اور ہمیں وہ سب کچھ دیا جس کے بغیر زندگی نا ممکن لگتی ہے۔۔۔ میری ناقص سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ کیوں کچھ فلسفی اس کے وجود کے دلائل ڈھونڈتے ہیں۔۔۔ کچھ نا ہوتا تو بھی میرا خدا ہوتا۔۔۔ اور کچھ بھی نا رہے گا تو بھی میرا اللہ ہو گا . .
مجھ میں اتنی سمجھ بھی نہیں کہ انبیاء کے تقدس اور وجود پر نظر ثانی کر سکوں۔۔۔ مجھے انبیاء ہر غلطی سے مبرا نظر آتے ہیں۔۔۔ مجھ جیسے جاہل کا ایمان ہے کہ ہر نبی اللہ کی زبان بولتے تھے۔۔۔ ہر رسول اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے۔۔۔ اور اللہ کی زبان اور پیغام کبھی غلطی نہیں کر سکتے۔۔۔ انبیاء تو معصوم تھے۔۔۔ انبیاء کو جو کام اللہ نے دے کر بھیجا۔۔۔ سب نے اپنا اپنا کام کیا اور واپس اپنے محبوب کے پاس لوٹ گئے۔۔۔
میرا جیسا گنوار یہ سوچتا ہے۔۔۔ کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتا دیا۔۔۔ چاہے ہم نے دیکھا یا نہیں دیکھا۔۔۔ اس پر ایمان لانا فرض ہے۔۔۔ چاہے وہ امام مہدی ہوں، دجال ہو، عیسی علیہ السلام کا ظہور ہو یا یا جوج ماجوج ہوں۔۔۔ مجھے یقین ہے۔۔۔ کہ وہ آئیں گے۔۔۔ ویسے ہی جیسے میرا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا کی اصلاح کے لیے مامور کیے۔۔۔ میں ان سے بھی نہیں ملا۔۔۔ لیکن ان کا وجود تھا۔۔۔
مجھے قرآن سے عشق ہے۔۔۔ کہ مجھے قرآن کی بتائی ہوئی ہر تعلیم سمجھ آتی ہے۔۔۔ مجھے کوئی اور کتاب اچھی نہیں لگتی کہ ہر دوسری کتاب کا اپنا علیحدہ موقف ہے۔۔۔ جب کہ قرآن میرا انسائیکلوپیڈیا ہے۔۔۔ جب بھی کوئی مشکل ہوئی۔۔۔ قرآن کھولا اور اس میں سے ہر مشکل کا حل ڈھونڈ لیا۔۔۔ میرے جیسے گنوار بندے کے لیے اللہ نے کیا آسان حل دے دیا۔۔۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا اندھا یقین ہے۔۔۔ کہ ہر وہ لفظ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے نکلا۔۔۔ وہ میرے اللہ کا تھا۔۔۔ زندگی بہترین طریقے سے گزارنے کے جو اصول مجھے حدیث سے ملے۔۔۔ وہ مجھے سائنس نہیں دے سکا۔۔۔ میرے کند دماغ کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہزار کوششوں کے باوجود حدیث سے منکر حضرات، اب تک اپنے مقاصد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے۔۔۔ فلسفہ اور سائنس کے کلیے استعمال کرتے کرتے وہ اتنے پرسکون کیوں نہیں، جتنا میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کو پورا کر کے ہوتا ہوں۔۔۔ کیا سنت اور حدیث رسول پر عمل کرنا زیادہ آسان ہے۔۔۔ جی۔۔۔ آسان تو ہوگا۔۔۔ ورنہ میرے جیسے کاہل اور جاہل انسان اسے کبھی نا اپناتے . . 
میری جاہلانہ سمجھ بھی یہاں آ کر رک جاتی ہے ۔۔ کہ میں وہ سارے کام کرنے کی کیوں کوشش کرتا ہوں جو مجھے پر میرے اللہ نے فرض کیے ہیں۔۔۔ یا جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے۔۔۔ اگر خدا نا ہوتا تو نماز کس لیے پڑھتا، روزہ کس لیے رکھتا، زکوٰۃ کس کے حکم سے دیتا۔۔۔ نیکی کیوں کرتا۔۔۔ کماتا کس کے لیے۔۔۔؟ یہ کام ہمیں کس نے کرنے کے لیے کہا۔۔۔؟ کیوں کہا۔۔۔؟ بس کہہ دیا اور ہم نے مان لیا۔۔۔ اب کرنا تو ہے۔۔۔ فرض جو ہے . .
جب یہ سب سوچتا ہوں تو مجھے خود کے جاہل، ان پڑھ اور گنوار ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔۔۔ کہ آنکھ بند کیے میں جس نبی کی پیروی کر رہا ہوں، جس دین کو اپنا کے بیٹھا ہوں . . اور جس خدا کی عبادت کرتا ہوں۔۔۔ وہ ہی حقیقت ہیں۔۔۔ اور لاکھ فلسفہ دوڑا لیں۔۔۔ حقیقت نہیں بدلے گی۔۔۔ لاکھ لاجیکس پیدا کر لیں۔۔۔ وجود الہیٰ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا . . اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس اور فلسفے کی ضرورت نہیں رہ جات






Sunday, 13 January 2013

الله کی شان (شكرانك ربنا)




اللہ تیری شان
اللہ رب العزت نے ہماری ناک میں ڈھائ لاکھ سونگھنے کے cells رکھے ھیں 
جو کتے 5 ملین ھوتے ہیں
میں قربان جاوں اپنے رب پر 
کہ
اگر میری ناک میں 5 ملین سیلز لگا دیتا تو 10 کلو میٹر دور کی بدبو مجھے میرے گھر میں مار دیتی 
جتنی میری ضرورت تھی اتنے سیل لگائے
سبحان اللہ

 

 

 

Saturday, 5 January 2013

قائداعظم کی تصویر کہاں گئی؟

قائداعظم کی تصویر کہاں گئی؟
یہ 1880 کی بات ہے. برطانیہ میں ایک غریب کسان کھیتی باڑی کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا وہ انتہائی غریب تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا تھا. ایک دن وہ کسان اپنے کھیتوں سے واپس آرہا تھا کہ اس نے کسی بچے کی چیخ سنی تو وہ چیخ کی سمت روانہ ہوگیا. یہ چیخیں ایک جنگل سے آرہی تھیں. وہ جنگل میں داخل ہوا تو اس نے ایک دلدل میں ایک پانچ سالہ بچے کو ڈوبتے ہوئے پایا جو گردن تک ڈوبا ہوا تھا اس نے فوری طور پر بچے کو کسی چیز کی مدد سے باہر نکالا اور اس نے بچے سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے تو بچے نے بتایا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ سیروتفریح کے لئے آیا تھا. کسان نے بچے کو اس جگہ چھوڑا جہاں اس کے ماں باپ رہائش پذیر تھے اور خود گھر کی طرف روانہ ہوگیا.
دوسرے دن اس کے گھر کے دروازے پر ایک بگھی رکی. اس میں سے وہ بچہ اور اس کا باپ باہر نکلے. اس نے کسان کو اپنا تعارف کرایا کہ وہ فلاں جگہ کا نواب ہے اور بچے کی جان بچانے پر کسان کا شکریہ ادا کیا. اس کے بعد نواب نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے نکال کر کسان کو کہا کہ تم نے میرے بچےکو بچایا ہے اس لئے یہ رقم قبول کرلیں. کسان نے رقم لینے سے انکار کردیا. اسی اثناء میں کسان کا بیٹا کسان کے ساتھ کھڑا ہوگیا. نواب نے پوچھا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے کسان نے ہاں میں سرہلایا. نواب نے پوچھا کہ تمہارا بیٹا پڑھتا ہے. کسان نے انکار میں سرہلادیا اور کہا کہ اسے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے اس نے بھی ہماری طرح کھیتی باڑی کرنی ہے. نواب نے کسان کو تعلیم کی اہمیت بتائی اور کہا کہ وہ اس بچے کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کو تیار ہے. کسان نے پھر انکار میں سرہلادیا تو نواب نے کہا کہ میں اس بچے پر چھوڑتا ہوں کہ یہ پڑھنا چاہتا ہے یا نہیں. نواب نے کسان کے بیٹے کے پوچھا کہ وہ پڑھناچاہتا ہے؟ تو بچے نے کہا کہ ہاں.
نواب نے خوش ہوکر کہا کہ اب فیصلہ ہوگیا ہے. یہ بچہ پڑھنا چاہتا ہے اس لئے میں اس کے سارے تعلیمی اخراجات اٹھاؤں گا. اس کے بعد نواب کا بیٹا اور کسان کا بیٹا دونوں اکٹھے سکول جاتے اور اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کی دو عظیم شخصیات بن گئیں. کسان کا بیٹا سر الیگزینڈر فلیمنگ تھا جس نے پنسلین ایجاد کی آج ہم جو انٹی بائیوٹک دوائیاں کھاتے ہیں وہ الیگزینڈر فلیمنگ کی مرہون منت ہیں جبکہ نواب کا بیٹا بعد ازاں برطانیہ کا وزیراعظم بنا اور سر ونسٹن چرچل کے نام سے مشہور ہوا. دونوں میں کافی چیزیں مشترک ہیں دونوں نے سر کا خطاب حاصل کیا اور دونوں نوبل انعام یافتہ ہیں.
مجھے یہ واقعہ پاکستان کے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شدت سے یاد آرہا ہے. وزیراعظم نے ان تمام کھلاڑیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا. بعدازاں انہیں انعام وکرام سے نوازا اور وزیراعظم نے ان کھلاڑیوں کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائی لیکن اس گروپ فوٹو میں دیوار پر بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر تھیں لیکن قائداعظم کی تصاویر نہیں تھیں. اسی طرح ایک نجی ٹی وی نے اس قسم کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز دکھائیں جہاں قائداعظم کی تصویر سرے سے موجود نہیں تھی. ایک نواب نے اپنے بیٹے کو بچانے کے عوض ایک کسان کے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ایک مشہور سائنسدان بنادیا. ایک کسان نے نواب کے بیٹے کو بچایا تو وہ برطانوی قوم کا مقدر بن گیا اس نے برطانوی قوم کو عظیم قوم بنایا اسے ایٹمی طاقت دلوائی لیکن ہمارے ہاں ایک شخص نے مسلمانوں کے لئے پاکستان بنایا اور ہم نے اس کے احسان کا بدلہ یہ دیا کہ اس کی تصاویر ہی دیواروں سے غائب کرادی. اس کی خدمات کو ہم اس طرح فراموش کرگئے کہ ہم نے صدارتی ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس سے اس کی تصاویر ہی ہٹادیں اور وہاں بے نظیر، زرداری، ذوالفقار بھٹو اور بلاول زرداری کی تصاویر لگادیں. کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلاول زرداری کی جگہ قائداعظم کی تصویر ہوتی. بلاول زرداری، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری نے کسی موقع پر پاکستان کونہیں بچایا. بے نظیر کے دور میں بھی کرپشن، اقرباء پروری، ناانصافی کی عظیم الشان مثالیں قائم ہوئیں جیسی آج آصف زرداری کے دور میں ہورہی ہیں.
دوسری جانب آئیے! یوسف رضاگیلانی اور آصف زرداری نے ورلڈ کپ جیتنے کے بدلے فی کھلاڑی25 لاکھ روپے انعام دیا لیکن قائداعظم کو پاکستان بنانے کی سزا اس کی تصاویر ہٹاکردی اور وہ یہ بھول گئے کہ وہ جس ملک کے وزیراعظم اور صدر ہیں وہ ملک قائداعظم کی مرہون منت ہے. یونس خان نے ورلڈ کپ میں فتح باب وولمر کے نام کی لیکن وزیراعظم ہاؤس کے درودیوار پر قائداعظم کی اتری تصاویر نہ دیکھ سکے. پاکستانی کھلاڑی انعام وکرام لے کر تو گھر چلے گئے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنے انعامات اور کمائی سے چند لاکھ روپے سوات متاثرین کو دے دیتے. ہرجماعت اپنے جلسے جلوسوں میں اپنے سیاسی قائدین کی بڑی بڑی قدآور تصاویر لگادیتی ہے لیکن قائداعظم کی تصویر لگانا گوارا نہیں کرتی. یہ سیاسی جماعتیں اپنی پارٹی کے جھنڈے اٹھاکر جلسے جلوس کرتی ہے لیکن پاکستان کا پرچم اٹھانا گوارا نہیں کرتی. شاید اسی لئے ہم غیرترقی یافتہ اور دنیا میں ذلیل ہورہے ہیں.
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ کسان اس بچے کو نہ بچاتا تو نہ سر ونسٹن چرچل پیدا ہوتا اور نہ ہی سر الیگزینڈرفلیمنگ اور ونسٹن چرچل کا یہ مقولہ مشہور نہ ہوتا کہ برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ہماری عدالتیں آزاد ہیں. ان سے ہمارے سیاستدانوں اور مفاد پرست عناصر کو سیکھنے کی ضرورت ہے

الله کی راہ میں خرچ کرو

 


‎"اﷲکی راہ میں مال خرچ نہ کرنے کا انجام"
یمن کے علاقے ضفوان میں ایک آدمی رہتا تھااﷲتعالی نے اسے خوبصورت باغ عطاکیاتھا۔وہ شخص متقی اور انتہائی نیک انسان تھا۔وہ اپنے باغ کی بہت حفاظت کرتا تھا۔جب باغ کے پھل تیار ہوجاتے تو باغ جا مالک انہیں توڑلیتا۔اور پھلوں سے اتنے پھل لیتا کہ اس کے گھر اور باغ کی حفاظت کا خرچہ نکل آتا اور باقی پھل غریبوں پر اﷲکی راہ میں صدقہ کردیتاتھا۔اسے غریب ومساکین بہت دعائیں دیتے۔
اس کے اس صدقہ کرنے اور غریبوں سے دعاؤں کی وجہ سے اﷲتعالی نے اس کے باغ میں برکتوں کا نزول کیا۔اس کے چند بیٹے تھے جب وہ اپنے باغ کی تقسیم دیکھتے تو کہتے کہ ہمارا باپ پاگل ہے جو سارا پھل غریبوں کی جھولی میں ڈال دیتا۔کیا ہم نے یہ باغ لوگوں کےلیے لگایاہے۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ ان کا باپ فوت ہوگیاتو وہ لڑکے بہت خوش ہوئے اب ہم ہر سال سارا پھل توڑکر خود ہی رکھیں گے،وہ اپنے باغ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتےان میں سے ایک بھائی کا موقف سب سے الگ تھا،وہ کہتاہے میرےبھائیو!ہمارا باپ غریبوں پر جو صدقہ کرتا تھا ،اس طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے کیونکہ اسی وجہ سے اﷲتعالی نے ہمارے باغ میں برکتوں کا نزول کیاہے۔باقی سب بھائیوں نے اس کء بات نہ مانی جب باغ کے پھل پک گئے تو سب بھائیوں نے یہ طے کیا کہ ہم فلاں رات کے آخری حصے میں اپنے باغ میں جائیں گے اور باغ کا سارا پھل توڑ کر گھرلائیں گے،یہ کام جلدی سے کرناہے تاکہ صبح﴿دن﴾ نہ ہوجائے اور کوئی فقیر ہمیں دیکھ نہ لے۔
وہ رات کو مشورہ کرکے سوگئے اور ان شاءاﷲ بھی نہ کہا،اﷲتعالی بے اس ظالمانہ فیصلے پر انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات کو سو رہے تھے اﷲتعالی نے کے حکم سے باغ پر ایسی آفت آئی کہ وہ باغ جل کر راکھ ہوگیا ۔اب رات کے آخری حصہ میں وہ بیدار ہوئے ایک دوسرے کو اٹھایا یہ کہہ کر وہ چل پڑے کہ آج کوئی مسکین ہمارے پاس نہیں آپائےگا۔آج ہم باغ کا سارا پھل توڑ لائیں گے یہی منصوبہ بناتے ہوئے جب باغ کے پاس پہنچے تو وہاں باغ کا نام ونشان بھی نہ تھا،آندھی سب کچھ اڑالےگئی تھی۔
جب وہ اپنا اجڑا ہوا باغ دیکھ کر کہنے لگے،شاہد ہم راستہ بھول گئے ہیں مگر غور وفکر کے بعد سمجھ گئےکہ یہ آفر زدہ باغ ہماراہی ہے جسے اﷲ نے ہمارے طرزعمل کی پاداش میں ایساکردیا۔اس وقت اس بھائی نہ وہ بات یاددلائی۔ اب افسوس کرنے لگے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اورکہنے لگے؛
"ہم ظالم ہیں اور اﷲ پاک ہے۔پھر آپس میں عہد کیا کہ اب اﷲ نے ہمیں باغ دیا تو ہم اس میں سے صدقہ کریں گے۔"
اﷲتعالی نےان کو دنیا میں ہی سزادی اور فرمایا؛
"ہم مال میں بخل کرنے والوں اور اپنے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اگر چاہیں تو دنیا میں ہی مزہ چکھا دیتے ہیں"
﴿یہ واقعہ قرآن میں سورة القلم آیت17سے 33میں بیان ہوا ہے﴾

الله وحدہ لاشریک ہنے


عقل مند لوگ اللہ تعالی کی پیدا کردہ خلقت میں غور و فکر کرتےہیں۔ غور و فکر کے بعد فطری طور پر یہ بات ہر انسان کے ذہن میں آتی ہے کہ اس کائنات کے خالق کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا، کوئی اس کے کاموں میں دخل انداز ی نہیں کرسکتا، بے شک وہی قہار و جبار ہے اسی کی ملکیت ہے ، بادشاہوں کا بادشاہ، بادشاہت بھی ایسی کہ زمین میں بھی اس کا امر چلتا ہے اور آسمان میں بھی اس کا حکم چلتا ہے، کن فیکون اس کی صفت ہے، کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں بلکہ وہ خود پوچھنے والا ہے، دنیا کا یہ نظام ہمارے مشاہدے میں ہے ، کبھی سورج ،چاند ستارے ، دن و رات ، آسمان و سمندر میں کسی نے بد نظمی و فطور کونہیں دیکھا ، ہاں! جب اللہ چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کائنات کو وہ عظیم وہ پاک نیز بلند اور تمام نقص سے پاک ہستی چلارہی ہے جس کو نیند تو دور کی بات اونگھ تک نہیں آتی ، جو تمام قسم کی برائیوں کی صفت سے پاک ہے، جو اولاد کا محتاج نہیں، جو ہر چیز پر مکمل علم رکھتا ہے اور اس اس کا علم ذرہ ذرہ پر محیط ہے، غیب کی کنجیاں رکھنے والا ہے، کوئی پتہ نہیں گرتا مگر اس کے علم سے۔
لہذا اب حق بھی اسی کا بنتا ہے کہ ہم اس کا ذکر کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہر وقت اس سے مدد طلب کرے۔ اللہ تعالی نے عقلمندوں کے بارے میں یہ فرمایاہے :
الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ سورۃ آل عمران : 191
جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے

کیا ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں


ہم مسلمان ہیں بخشے جائینگے
اکثر یہ سننے کو ملتا ہے ک ہم مسلمان ہیں ہم بخشے جائینگے
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں ایسے لوگوں کا نظریہ بالکل اس کے بر عکس ہے ۔ ذہین سے ذہین طالب علم کے متعلق بھی یہ کوئی نہیں کہے گا کہ وہ بغیر تمام مضامین اچھی طرح سے پڑھے کامیاب ہو جائے گا ۔ یا کوئی شخص بغیر محنت کئے تجارت میں منافع حاصل کرے گا ۔ یا بغیر محنت سے کام کئے دفتر میں ترقی پا جائے گا
قرآن کریم کے ذریعہ عمل کیلئے دیئے گئے تمام احکامات کے ساتھ کوئی نا کوئی شرط ہے جس کی وجہ سے کُلی یا جزوی یا وقتی استثنٰی مِل جاتا ہے سوائے نماز کے جس کی سوائے بیہوشی کی حالت کے کسی صورت معافی نہیں ۔ ہمارے ایسے بھائی بھی ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور چونکہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اسلئے اُنہیں کوئی کچھ نہیں سِکھا سکتا ۔ کیا اس سائنسی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاضی اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی ریاضی دان بن جائے یا کیمسٹری اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی کیمسٹ بن جائے ۔ علٰی ھٰذالقیاس ؟
اگر ہم اللہ کی کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو ہم ہر لغو خیال سے بچ سکتے ہیں ۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ الْعَنْکَبُوْت45
ترجمہ ۔ جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیں اور نماز قائم کریں ۔ یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔ بیشک اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خبردار ہے
اگر نماز پڑھنے والا بے حیائی اور بُرائی میں ملوث رہتا ہے تو اس میں نماز کا نہیں بلکہ نماز پڑھنے والے کا قصور ہے یعنی وہ نماز صرف عادت کے طور پر یا بے مقصد پڑھتا ہے ۔ نماز میں جو کچھ پڑھتا ہے اُسے سمجھ کر نہیں پڑھتا ۔
مسلمان ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے اُس کا ہر عمل اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ہو اور اللہ ہی کی خوشنودی کیلئے ہو یہاں تک کہ وہ مَرے بھی تو اللہ کی خوشنودی کیلئے ۔
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الْأَنْعَام162
ترجمہ ۔ کہہ دیں کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ الْعَنْکَبُوْت2
ترجمہ ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھ ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ۔
یہاں آزمانے سے مُراد امتحان لینا ہی ہے جس میں کامیابی کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیسے ہر دنیاوی کام یا علم کیلئے امتحان اور مشکل مراحل میں صبر و تحمل اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ہم دین کو اس سے مستثنٰی کیوں سمجھتے ہیں ؟
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ الْبَقَرَة 208
ترجمہ ۔ اے ایمان والو ۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو ۔ بیشک وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے
مطلب یہ ہوا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات کی پابندی کرو ۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو بلکہ سب مسلمانوں کو سمجھنے اور عمل کی توفیق دے آمین


والدین اور انکا حق


اس ہستی کے نام جو اولاد کے لئے
ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
نہ صرف میرے بلکہ تمام دوستوں کے والدین کے نام
میرے والد صاحب آج سے آٹھ سال پہلے دوران اپرشن انتقال فرما گے ایک درد تھا جو انکے دل میں تھا کیونکہ مجھ کو ان سے بچھڑے سات سال ہو گے تھے انہوں نے کبھی بتایا نہیں تھا لکن مجھے معلوم تھا کے انکے دل پی بوہت بھاری بھوجھ ہے آج الحمدوللہ میرے پاس سب کچھ ہے کروڑوں کا گھر نے ماڈل کی گا ریان اگر نہیں ہیں تو میرے والد صاحب نہیں ہیں انکے لئے بلکہ تمام دوستوں کے والدین کے لئے دوا کیجئے گا
ابا جی کے نام ،،
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ و جان سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مجھے چومتے ہوئے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پایا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !
ہر اک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر سوائے میرے وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پیسنا میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے !
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے !

خطبہ حجتہ الوداع


حجتہ الوداع
 کے موقع پر رسول کریم ؐ نے مسلمانوں سے آخری خطبہ ارشاد فرمایااے لوگوں!شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی تم سے یہاں ملاقات نہ ہو سکےجو تم میں غریب ہے اسے وہی کھلائو جو تم کھاتے ہو وہی پہنائو جو تم پہنتے ہوکہ سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا... جو موجود ہے وہ انہیں بتا دیں جو موجود نہیں تم سب ایک آدم کی اولاد ہواور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جسے اللہ کا خوف ہے میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو!ایام جاہلیت کے مقتولین کا قصاص اوردیت دونوں ختم کی جاتی ہیں یاد رکھو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں مسلمانوں میں رنگ‘ نسل اور قبیلے کا کوئی امتیاز نہیں کوئی مسلمان کسی دوسرے کے مال پر ناجائز تصرف نہیں کرے گاورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائے گالوگو غور سے سنو!جو چیز میں تم میں چھوڑے جا رہا ہوں وہ چیز نہایت واضع اور روشن ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت!اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی ٹھوکر نہ کھائو گےپھر آپ نے تکمیل دین کے حوالے سے اس آیت کی تلاوت فرمائی’’آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیااور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی زندگی ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ نے ان لوگوں کو بھی معاف کیا جو آپ کو گالیاں دیتے تھے اور ہمارے لیے مثال قائم کی کہ تم بھی معاف کر دیا کرو۔ آپ دونوں جہاں کی لیے رحمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم اس بات پر خوش نہیں ہوں گے کہ 12 ربیع اول کو کتنی دیگییں دیں ، گھروں کو سجایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی تعلیمات پر عمل کر کہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اور مجھے دین کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین

فجر کی نماز اور یہودیوں کا عقیدہ


Read Carefully
اردن اور فلسطین کی سرحدیں آپس میں ملی ھوئ ھیں ، وہاں عرب اور یہودی بڑی تعداد میں آباد ہیں
ایک دوسرے کے رشتہ دار وہاں کافی عرصے سے آباد ھیں لہذا وہاں آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ھے
وہاں کے بہت سے یہودی عرب مسلمانوں سے اکثر پوچھتے رہتے ہیں
کہ
آپ لوگوں کی مسجدوں میں فجر کی نماز میں کتنی صفیں بنتی ہیں
ظہر میں کتنی
عصر میں کتنی
اور خاص کر جمعہ کی نماز میں کتنی صفیں بنتی ہیں
عربوں کا وہی جواب ہوتا ہے جو ہمارا حال ہے
کہ
فجر میں 1/21 (ڈیڑھ ) صف بھی مشکل سے بنتی ہے
اور
جمعہ کی نماز میں سڑک پر بھی مشکل جگہ ملتی ہے
ایک مرتبہ ایک عرب نے یہودی کے اسی سوال پر پوچھ ہی لیا کہ
آخر آپ ہم سے یہ سوال کیوں پوچھتے ہو
یہودی نے اس سوال کے جواب میں بڑا انکشاف کیا
کہ
ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ جس دن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی فجر کی نماز کی صفیں ، جمعہ کی صفوں کے برابر ہوجائیں گی
اللہ اس دھرتی سے یہودیوں کا خاتمہ فرما دے گا
اللہ اکبر
کاش آج ہم مسلمان اس بات کو سمجھ جائیں اللہ ہم سب کو ہدایت دے
آمین یا رب العامین


غیر مسلموں کا تیزی سے قبول اسلام

 


افغانستان میں تعینات امریکی فوجی افسر جیمز گرانٹ نے اسلام قبول کرلیا۔
امریکی فوجی افسر جیمزگرانٹ نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں اسلام قبول کیا جس کا باقاعدہ اعلان انہوں نےجمعہ کے روز کیا۔ دو بچوں کے باپ امریکی افسر جیمزگرانٹ نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام محمد آصف رکھا ہے۔
جیمزگرانٹ کا کہناتھا کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے جس کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ اسلام ہی حقیقی معنوں میں سچا مذہب ہے۔قبول اسلام سے قبل میں نےاپنی بیوی سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اس بات کی مخالفت نہیں کی۔
امریکی افسر نےاپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہاکہ اب میں ایک سچے مذہب اسلام پر عمل پیرا ہوں جس کی دعوت میں سب سے پہلے اپنے خاندان اور پھر دوسروں کو دوں گا۔
افغانیوں نےامریکی ریاست ٹینسی سے تعلق رکھنے والے امریکی افسرجیم گرانٹ کے اسلام قبول کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔

Thursday, 3 January 2013

گستاخ رسول



{{آقا مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پھر گستاخی ؟}} کیا آپ کو نبی پاک ص سے محبت ہے ۔۔۔۔۔؟؟؟
برائے کرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ برائے کرم ۔۔ رکئیے ۔۔ اور صرف چند منٹ میری یہ تحریر ضرور پڑھیئے

فرانس کے میگزین (چارلی ھیبڈو ) نے ایک بار پھر مسلمانوں کی غیرت کو للکارا ھے 
قبل اس کے کہ میں اس اخبار کی اس گستاخی پر بات کروں ۔۔۔۔ برائے کرم پہلے یہ تحریر پڑھ لیں ۔۔ آج کل جب بھی دنیا میں توھین رسالت کی بات ہوتی ھے ۔۔ کافر تو کافر آپنے کچھ روشن خیال ۔۔ عام اور کچھ دینی عالم دانستہ یا غیر دانستہ مسلمانوں میں ایک غلط فہمی پھیلاتے ہیں ۔۔۔ کہ نبی پاک ص رحمت اللعالمین کی صفت ہونے کی بناء پر کبھی کسی شاتم رسول کو سزا نہیں دی ھمیشہ در گزر سے کام لیا ھے ۔۔ اور یہ غلط فہمی اللہ کی قسم صرف وہ لوگ پھیلاتے ہیں جن کو آپنی حکومتیں ۔۔۔ کرسیاں ، مال و دولت یا جن کو یورپ کی نیشنلٹیاں پیاری ہیں ۔۔ سب سے پہلے آپ نبی پاک ص کی سیرت کو دیکھیں ۔۔ نبی پاک کی ساری زندگی اللہ کے احکام اورجملہ افعال اور اقوال کو اللہ تعالی کے تابع تھی ۔۔ بات بہت لمبی ھے مختصر یہ کہ مکی زندگی آپ ص نے اہل مکہ کی تمام تر سختیاں اللہ کے حکم سے تحمل و صبر سے برداشت کیں ۔۔۔ ھجرت مدینہ کے بعد جب ایک اسلامی ریاست قائم ہو گئی تو ۔۔۔ کفار کی تمام تر شر انگیزیوں کا جواب بھر پور طریقے سے دیا گیا ۔۔۔۔ جنگ بدر ۔۔ جنگ احد ،کے علاوہ حق اور باطل کے درمیان کئی معرکے رونما ہوئے ۔۔ شر انگیز لوگوں کا جواب ان کی ھی زبان میں واپس دیا گیا ۔۔۔۔ بات کو مختصر کرتا ہوں ۔۔۔ آج دنیا میں چند ٹکوں کی لالچ اور مال و دولت کے پجاری
ھمیشہ ۔۔ بڑھیا کا کوڑا پھینکنا ، طائف میں پھتر لگنے کا واقعہ اور اس طرح کے واقعات پیش کر کے اس قسم کے شاتم رسولوں کو جلا بخشتے ہیں ۔۔
آئیے میں صرف چند وہ واقعات آپ کو لکھ دوں جس میں صاف ظاہر ھے کہ شاتم رسول کیی سزا صرف موت ھے اور وہ آپ صلی اللہ نے آپنی زندگی میں خود دی تھی ۔۔
آج کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں پاکستان کے آئین میں اس کا قانون بنوانے میں ان کا رول ھے میں یہ کیا وہ کیا ۔۔۔۔۔ میرے بھائیو ۔۔۔ کوئی کرے یا کرے یہ قانون 1434 سالوں سے نبی پاک کی سنت میں موجود ھے ۔۔۔ فرق صرف یہ ھے کہ آج میرے سمیت ھم لوگ صرف نام کے عاشق رسول رہ گئے ہیں
جب کہ نبی پاک اور اصحابہ نے شاتم رسولوں کو جہنم واصل کیا تھا 

1 ۔جنگ بدر کے قیدیوں میں ۔۔۔آپ ص کو نضر بن حارث نظر آیا جو مکی دور میں شاتم رسول تھا آپ نے اس کو قتل کروا دیا ۔۔ جب کہ وہ قیدی تھا 

2۔مکی دور میں آپ ص پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ۔۔ ڈالنے والا اور آپ ص کو ایک بار گلے میں کپڑا ڈال کر کسنے والا عقبہ بن ابی ۔۔ اس کو بھی جنگ بدر کے بعد قتل کروا دیا

3 ۔ جنگ بدر کے اگلے سال 3ھجری میں 4 شاتم رسولوں کو قتل کیا گیا 
اس میں ایک عقما نامی شاعرہ جو آپ کی شان میں گستاخی کے شعر لکھتی تھی 

4 ۔۔ ابو عنک نامی ایک شاعر آپ کی شان میں گساخیاں کرتا تھا اس کو آپ نے قتل کروا دیا

5 ۔ سب بڑا اور امیر ایک یہودی کعب بن اشرف جو آپ ص کی شان میں بے حد بد زبانی کرتا تھآ آپ کے حکم سے جند اصحابی نے اس کو قتل کر دیا اس شاتم رسول کے قتل کی کر نے کافی شیرت پائی تھی

6 ۔ جنگ احد میں ایک اور کافر ابو عزہ حمجی جو کہ ایک شاتم رسول تھآ اس کو قتل کروایا

7۔ اس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر سب کو عام معافی تھی ۔۔ مگر 9 / یا 12 لوگ ایسے تھے جن کے بارے نبی صلی اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ اگر کعبہ کے پردے کے پیچھے بھی چھپے ہوں تو ان کو قتل کر دو ۔۔۔۔۔۔۔ وجہ ۔۔۔؟؟ یہ سب شاتم رسول تھے اور قتل ہوئے
اب مجھے کوئی چند ٹکوں کی دنیا کا پجاری ۔۔۔ شخص یا عالم یہ بتائے کہ نبی پاک صلی اللہ نے ان سب لوگوں کو کیوں نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
آج مسلمانوں کے آپنے ملک ہیں ۔۔ڈیرھ عرب مسلمان دنیا میں موجود ہیں 
چلیں مت لڑو اس نے جاکر ۔۔۔۔۔۔ کیا ھم لوگ اسی بات کو عزر بناکر ۔۔ یو این او ۔۔ سے باھر نہیں نکل سکتے ۔۔۔ کیا 55 ممالک شاتم رسول ملکوں کے سفیروں کو ملک بدر نہیں کر سکتے ۔۔۔

آج اس فرانس کی اخبار نے پھر یہ جرات کی ھے اور کہا ھے یہ ھم نے محمد ص کی زندگی کو خاکوں کی صورت میں پیش کیا ھے ۔۔ اور ھم چاھتے ہیں یہ کارٹون نما کہانی سکولوں میں پڑھائی جائے ۔۔۔۔ اللہ اس چارپ نامی بندے کو جہنم واصل کرے ۔۔۔ میں مزید بھی لکھ سکتا ہوں
پیارے دوستوں ۔۔۔۔۔ ھم اگر کچھ کر نہیں سکتے تو کم ازکم ان شاتم رسولوں کی اس حرکت کو ان کے آزاد قانون کی بنا پر ۔۔ بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے 
جو شاتم رسول ھے واجب القتل ھے ۔۔۔۔۔ اور یہ سنت مجھے میرے نبی نے بتائی ھے۔۔ ھے کوئی مائی کا لال اس کو چیلنج کرنے والا ۔۔۔۔؟؟
پڑھنے کا بہت شکریہ ۔۔۔نبی سے محبت ھے تو اس کو آگے شئیر کرو تاکہ لوگوں میں غلط فہمیاں ختم ہوں
واسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امت کی پکار کے ساتھ ۔

visitors of the site

Flag Counter